کینیڈین احمدی مبلغ پر امریکہ میں بچوں کی فحش فلمیں بنانے کے الزام میں فرد جرم عائد

جامعہ احمدیہ کینیڈا کے نیوز لیٹر”افق مغرب” کے شمارہ اکتوبر تا نومبر 2014 کے سر ورق پر لقمان رانا لائن میں دوسرے نمبر پرخوشگوار موڈ میں

تحریر و تصاویر رانا تنویر

(اس سٹوری میں شامل تصاویر جامعہ احمدیہ کینیڈا کی ویبسائٹ سے 27جنوری 2022 کو حاصل کی گئیں جو کہ احمدی انتظامیہ کی طرف سے ہٹا دی گئی ہیں اور اب وہاں موجود نہیں)

ٹورنٹو ایریا سے تعلق رکھنے والے جماعت احمدیہ کے ایک مبلغ کو امریکہ میں بچوں کی فحش فلمیں بنانےاوران کو ڈرا دھمکا کر مفادات لینے کے الزامات کا سامنا ہے جس پر اسے  160 سال تک کی جیل ہوسکتی ہے۔

مشنری محمد لقمان رانا کو کم از کم 10 الزامات کا سامنا ہے کہ وہ امریکہ میں پانچ بچوں کی فحش فلمیں تیار کرنے اوراپنے ذاتی فائدے کے لیے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔ اگر وہ ان تمام الزامات میں مجرم ٹھہرتا ہے، تو اسے وفاقی جیل میں 15 سے 160 سال کی لازمی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ واقعہ خود دعویٰ کرنے والی “اخلاقی و مزہبی طور پر کامل” اور درجہ بندی سے کنٹرول شدہ جماعت احمدیہ کے حالیہ جنسی سکینڈلز کے مسئلے کی ایک اور سنگین یاد دہانی ہے۔ گزشتہ سال 12 دسمبر کے بعد سے جب کمیونٹی سربراہ اور اس کی ایک خاتون رشتہ دار کے درمیان ریکارڈ شدہ آڈیو کال لیک ہوئی جس میں وہ اپنے مبینہ ریپ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی درخواست کر رہی تھی، جنسی زیادتی کے مختلف تین بڑے واقعات سرخیوں میں آچکے ہیں۔ یکے بعد دیگرے ان واقعات کے سامنے آنے سے جماعت کے اندر جدید جمہوری اور سیکولر نظام کے مطابق اصلاح کی حامی اٹھنے والی آوازوں کو تقویت ملی ہے۔ جماعت کی زندہ آرتھوڈاکسیفائنگ قوتیں اس حوالے سے کوئی کھلا بیان جاری کیے بغیر اس طرح کی اٹھنے والی آوازوں کو”خداءی” جماعت مخالف قرار دے کر مزاحمت کر رہی ہیں۔

جامعہ احمدیہ کے نیوز لیٹر کے شمارہ ستمبر 2014 کے صفحہ 8 پر لقمان سیلفی لیتے ہوۓ

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق، 32 سالہ محمد لقمان رانا نے امریکہ کے مختلف علاقوں بشمول میری لینڈ، اوکلاہوما، وسکونسن، واشنگٹن اور نیویارک میں مقیم پانچ نابالغ متاثرین کو پورنوگرافی تیار کرنے اور ذاتی مفادات کی خاطرمتاثرین کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر جنسی زیادتی کے لیے اکسایا اور مجبور کیا۔ ملزم پیس ولیج کا رہائشی ہے جہاں جماعت احمدیہ کا کینیڈا ہیڈکوارٹر ہے۔ محکمہ انصاف کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعات جون 2014 اور جون 2016 کے درمیان اس وقت پیش آئے جب وہ جامعہ احمدیہ کینیڈا میں اپنے 7 سالہ طویل مشنری کورس کے آخری سال میں تھے۔ محکمہ انصاف کے بین الاقوامی امور کے دفتر نے کینیڈا میں قانون نافذ کرنے والے داروں کے ساتھ مل کر کینیڈا میں رانا کی گرفتاری اور اس کی امریکہ حوالگی کے لیے کام کیا۔ رانا کے حلاف تحقیقات ایف بی آئی اور ٹورنٹو پولیس مشترکہ طور پر کر رہی ہیں۔

جامعہ احمدیہ کینیڈا کے نیوز لیٹر”افق مغرب” کے شمارہ جون – جولائی 2015 کے صفحہ 9-10 کے عکس جس میں رانا سمیت اس سال گریجوئیٹ ہونے والے طلبا کی تصاویر اور تعارف چھپے۔

 

جامعہ احمدیہ کینیڈا کے نیوز لیٹر”افق مغرب” کے شمارہ جون – جولائی 2015 کے صفحہ 9-10 کے مطابق، رانا نے 2015 میں چھ دیگر طلباء کے ساتھ مشنری کا سات سالہ کورس مکمل کیا۔

محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ کیس سے متعلق عدالتی دستاویزات 26 جنوری 2022 تک سیل کر دی گئی تھیں، جب رانا نے بالٹی مور میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں مجسٹریٹ جج اے ڈیوڈ کاپرتھائٹ کے سامنے اپنی ابتدائی حاضری دی۔ عدالت کے روبرو ملزمان کی موجودگی میں محکمہ انصاف کے کرمنل ڈویژن کے اسسٹنٹ اٹارنی، میری لینڈ ڈسٹرکٹ کے امریکی اٹارنی، ایف بی آئی کے انچارج خصوصی ایجنٹ اور ٹورنٹو پولیس سروس کے چیف نے چارج شیٹ پڑھ کر سناءی۔

فرد جرم کی دستاویزات کے مطابق، جس کی کاپی ریلیجن آبزرور کے پاس موجود ہے، ان پر چائلڈ پورنوگرافی کی تیاری کے پانچ اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر مفاد لینے کے پانچ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق کینیڈا کی پولیس نے 24 مارچ 2017 کو رانا کو ایک نوعمر لڑکی کو اپنی جنسی تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے کے لیے دھمکی دینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے اسے اوٹاوا میں نیشنل چائلڈ ایکسپلوآءی ٹیشن کوآرڈینیشن سینٹر سے اطلاع ملنے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ جماعت کے ذرائع کے مطابق، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، 2017 میں رانا کی گرفتاری کے بعد اسے جماعت سے نکال دیا گیا تھا اور بعد میں بحال کر کے مسی ساگا کی عبادت گاہ میں اسائنمنٹ پر لگا دیا گیا تھا۔

جامعہ احمدیہ

جامعہ احمدیہ کینیڈا ،پاکستان، ہندوستان، انگلینڈ، گھانا، جرمنی، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے دیگر احمدی مدارس کی طرح احمدی مشنریوں کو تیار کرتا ہے۔ چھوٹے کورسز کے علاوہ، وہ سات سالہ اہم پروگرام پیش کرتے ہیں جسے شاہد کہا جاتا ہے۔ کورس کا میڈیم اردو ہے۔ وہ کوئی فیس نہیں لیتے اور طلباء کو مفت رہائش فراہم کرتے ہیں۔ صرف 17 سے 20 کے درمیان احمدی مرد اور 70 فیصد نمبروں کے ساتھ گریڈ 12 (کینیڈا) کے برابر تعلیم حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ امیدواروں کو وقف کا تحریری وعدہ دینا ہوگا (جماعت کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا عہد)۔ داخلہ کمیٹی اپنی سفارشات برطانیہ میں کمیونٹی کے سربراہ کو بھیجتی ہے جو داخلے کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ پروگرام کی تکمیل کے لیے، طلباء کو کسی مشنری کے ساتھ انٹرن کے طور پر میدان میں چھ ماہ گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے، مثالی طور پر کسی افریقی ملک میں، اور چھ ماہ برطانیہ میں اپنی کمیونٹی کے سربراہ کے ساتھ۔ گزارنا ضروری ہوتا ہے۔ پروگرام کی تکمیل کے بعد، ان کے کمیونٹی سربراہ کی منظوری سے، کامیاب طلباء کو شاہد کی ڈگریاں اور مشنری کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ کمیونٹی کا سربراہ خود تحریک جدید کے ذریعے مشنریوں کو مختلف ممالک میں بھیجتا ہے۔ مشنری کمیونٹی کے سربراہ کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں اور اسے اپنی ماہانہ پیش رفت کی رپورٹ بھیجتے ہیں۔

پیس ویلیج

1985 میں، احمدیہ کمیونٹی نے اپنا کینیڈا مشن ہاؤس بنانے کے لیے ٹورنٹو کے قریب وان نامی علاقہ میں 25 ایکڑ زمین خریدی۔ جماعت کی جائیداد سے ملحق کچھ بلڈرز نے 50 ایکڑ اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹی شروع کی تو احمدیہ برادری کے افراد نے تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی زیادہ تر مکانات خرید لیے اور بعد میں اسے پیس ویلج کا نام دیا گیا۔ کمیونٹی علاقے کی میونسپل پلاننگ میں اثر ورسوخ قاءم کرنے میں کامیاب ہوءی اور علاقے کی کئی گلیوں کو اپنے کمیونٹی لیڈروں کے نام پر رکھوا لیۓ۔ علاقے کی کچھ سڑکوں اور گلیوں کے ناموں میں احمدیہ ایونیو، عبدالسلام اسٹریٹ، بشیر اسٹریٹ، طاہر اسٹریٹ، ناصر کریسنٹ، نورالدین کورٹ، ظفر اللہ خان کریسنٹ، محمود کریسنٹ، احمدیہ پارک، اور فاضیہ مہدی پارک شامل ہیں۔

Share

Rana Tanveer

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *