احمدی ہم جنس پرست رکن پارلیمنٹ نے جنسی زیادتی کا مجرم قرارپانے پراستعفیٰ دے دیا، سیاست چھوڑ دی

 

 

عمران احمد خان، ایک 15 سالہ لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرتکب پائے جانے کے بعد کنزرویٹو پارٹی سے نکالے گئے ہم جنس پرست احمدی  ایم پی، نے اعلان کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں گے، جس سے ویک فیلڈ کی یارکشائر سیٹ پر ضمنی انتخاب ہو گا۔

اگرچہ خان 11 اپریل کی سزا کے خلاف اپیل کر رہے ہیں، اس نے اعلان کیا کہ وہ “سیاسی زندگی سے دستبردار ہو جائیں گے” اور ہاؤس آف کامنز کے حکام کو باضابطہ طور پر اپنا استعفیٰ پیش کرنے کے لیے خط لکھیں گے۔

احمدی رکن پارلیمنٹ عمران احمد خان کو 15 سالہ لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اسے سزاکسی اور دن سنائی جائے گی۔

خان نے الزامات کی تردید کی تھی لیکن مقدمے کی سماعت کے بعد اسے مجرم پایا گیا۔ ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ، یوکے، کودوران ٹرائل بتایا گیا کہ اس نے نوجوان کوشراب پینے پر مجبور کیا، اسے گھسیٹ کر اوپر لے گیا اور اسے جنسی حراسانی کا شکار بنانے سے پہلے اسے فحش فلم بھی دیکھائی۔

فیصلے کے بعد خان کی سیاسی جماعت کنزرویٹو پارٹی نے کہا کہ انہیں پارٹی سے فوری طور پر نکال دیا گیا ہے۔ خان 2019 میں ایم پی منتخب ہوئے تھے۔

تقریباً پانچ گھنٹے کی بحث کے بعد خان کو قصوروار پایا گیا۔فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے جسٹس بیکر نے کہا کہ وہ خان کو ایک مقررہ تاریخ پر سزا سنائیں گے اور انہوں نے انہیں خبردار کیا کہ عدالت فوری گرفتاری سمیت سزا کے تمام ترطریقوں پر غور کرے گی۔

 یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ایک احمدی ہونے کے ناطے، شراب نوشی اور ہم جنس پرستی دونوں سختی سے ممنوع ہیں،خان نے ابتدائی طور پر عدالت سے درخواست کی تھی کہ کیس کی سماعت خفیہ طریقے سے کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کیونکہ وہ ایک ہم جنس پرست ہیں اوراحمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ  اس کیس میں ان کے شراب پینے کا ذکربھی ہے اس لیے اس سماعت کی رپورٹنگ سے وہ برطانیہ اور بیرون ملک ان کی حفاظت کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے شکایت کنندہ کی عمر کو بھی چھپانے کی درخواست کی تھی۔

تاہم ان کی درخواستوں کو ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ کے چیف مجسٹریٹ پال گولڈ اسپرنگ نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیاساکھ کا نقصان عدالتی حکم کی کوئی بنیاد نہیں ہے، کھلا انصاف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا سنگ بنیاد ہے اور رہنا چاہیے۔

اس نے تین ہفتے قبل مقدمے کی سماعت کے پہلے دن گمنام طور پر کیس کی سماعت کرنے کی دوبارہ کوشش کی۔ ایک عارضی پابندی کا حکم دیا گیا تھا لیکن مقدمے کی سماعت کے دوسرے دن کے اختتام پر عدالت نے یہ حکم واپس لے لیا۔

الزامات کے مطابق، خان لڑکے کے بستر پر گیا تھا اور اس کی ٹانگوں کو چھوا، اس کی کمر تک ہاتھ لیجا کر اسے چھونے لگا۔ شکایت کنندہ، جو اب 29 سال کے ہیں، نے کہا کہ خان کے اس عمل نے اسے خوفزدہ اور صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔اس نے مذید کہا کہ خان نے اسے آہستہ آہستہ پیار کرنا شروع کر دیا اور رکنے کے لیے کہے جانے کے باوجوداس نے اپنا مشکوک عمل جاری رکھا۔ شکایت کنندہ نے کہاملزم کی سانسیں کافی گہری ہوتی جارہی تھیں اور میں اس کے ہاتھ کو دور کرتا رہا اور اسے پیچھے دھکیلتا رہا مگر وہ پیچھے نہ ہٹا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت پولیس کو بلایا گیا تھا لیکن شکایت کنندہ نے اس وقت کیس کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

شکایت کنندہ نے کہا کہ جب اسے 2019 میں یہ معلوم ہوا کہ خان عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تو اس نے کنزرویٹو پارٹی سے رابطہ کیا مگر کچھ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ خان کے پارلیمنٹ میں منتخب ہونے کے بعد اس نے پولیس سے رابطہ کیا۔

شکایت کنندہ کے بڑے بھائی نے عدالت کو بتایا کہ اسی پارٹی میں خان نے اسے بھی مشکوک اور جنسی حراسانی کے انداز سے مائل کرنے کی کوشش کی۔

عدالت کے سامنے ایک اور گواہ نے خان پر الزام لگایا کہ اس نے 2010 میں پشاور، پاکستان میں ایک پارٹی کے بعد اس پر جنسی حراسانی کا فعل کیا تھا جہاں ان دونوں نے وہسکی پی تھی اور چرس بھی پی تھی۔

خان نے دعویٰ کیا کہ اس نے نوجوان کی کہنی کو صرف اس وقت چھوا تھا۔خان نے عدالت سے نکلتے وقت کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم، ان کے وکیل نے بعد میں ایک بیان جاری کیا کہ وہ اپنی بے گناہی کو برقرار رکھتے ہیں اور جلد از جلد اپیل کریں گے۔

اسٹافورڈ شائر پولیس نے کہا کہ انہوں نے دسمبر 2019 میں متاثرہ کے سامنے آنے کے بعد خان سے تفتیش شروع کی۔ ایک بیان میں، پولیس نے کہا: ”ہم جانتے ہیں کہ آگے آنا اور ان جرائم کی اطلاع دینا کتنا مشکل ہے، لیکن ذمہ داروں کوان کے جرائم کی سزا کے لیئے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔

ہم متاثرہ شخص کی تعریف کرنا چاہیں گے کہ اس نے اپنے خلاف کیے گئے جرم کی اطلاع دی – اس نے ایسا کرنے میں حقیقی بہادری اور ہمت کا مظاہرہ کیا۔ اس کیس کا متاثرہ اور اس کے خاندان پر کئی سالوں سے بہت بڑا اثر رہا ہے، پولیس نے کہا۔.

اگر خان کو ایک سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی تو انہیں ہاؤس آف کامنز سے  نکال دیا جائے گا۔ خان، جو غیر مشروط ضمانت پر ہیں، کو کنزرویٹو پارٹی نے پہلے سے ہی معطل کیا ہوا اور وہ آزادرکن کی حیثیت سے ہاوس آف کامنز میں بیٹھے ہیں۔

ان کے انتخابات کے بعد جماعت احمدیہ برطانیہ نے خان کو مبارکباد دی تھی۔ اس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل – @AhmadiyyaUK – نے 13 دسمبر 2019 کو کہا، ”

@imranahmadkhan کو ویک فیلڈ کے ممبر پارلیمنٹ بننے پر مبارکباد، نیک تمنائیں اور پرامن دنیا کی تعمیر میں کامیابی کے لیے دعائیں دیتے ہیں۔ عمران احمد خان برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہونے والے احمدیہ مسلم کمیونٹی کے پہلے رکن ہیں۔

خان کے والد کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا اور وہ انگلینڈ چلے گئے تھے۔

Share

رانا تنویر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *