کیلاش: جہاں حیض کے دوران اور بچے کی پیدائش پر عورت کو گھر چھوڑنا پڑتا ہے

  • حمیرا کنول

‘اگر آپ بشالی میں چلی گئیں تو پھر آپ گاٶں میں نہائے بغیر داخل نہیں ہو سکتی۔’

ضلع چترال کے علاقے کیلاش کی وادی بمبوریت کی ایک عمارت کے گیٹ پر بہت سی لڑکیاں بات چیت کرتی دکھائی دیں۔ یہ وہاں موجود گھروں اور ہوٹلوں سے کچھ مختلف عمارت لگی جس کی پیشانی پر ایک سیاہ تختی پہ لکھا تھا ’خبردار! بشالی کی حدود ممنوعہ علاقہ ہے۔‘

وہاں عورتوں کی قاضی، بٹ خیلی بی بی نے شناخت اور مقصد پوچھنے کے بعد اجازت دے دی۔ اندر گئی تو استقبال مسکراہٹ اور شپاتا (سلام) کے ساتھ کیا گیا۔

پتھر اور لکڑی سے بنی لگ بھگ 15 سے 20 مرلے کی اس پختہ عمارت میں عورتیں، لڑکیاں اور کچھ شیر خوار بچے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں مرد کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتے۔

پچھواڑے اور اطراف میں بیرونی دیواروں کے بجائے ڈھائی فٹ اونچی پتھر کی باؤنڈری بنی تھی۔ نیچے سے گزرتی ندی کا منظر اور ارد گرد کا سبزہ ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔

تین کمرے،کچن اور واش رومز کے علاوہ یہاں زیادہ تر حصہ پختہ فرش اور کہیں کہیں گھاس سے ڈھکا ہوا تھا

مخصوص ثقافت، الگ مذہب کے ماننے والے کیلاشیوں کی کل آبادی 4000 افراد پر مشتمل ہے۔

وہ اپنے گاؤں کو ’اونجسٹہ‘ کہتے ہیں یعنی پاک جگہ اور بشالی ’پرگاتہ‘ یعنی ناپاکی کی حالت میں عورتوں اور لڑکیوں کو یہاں آنا پڑتا ہے۔

عموماً ان وادیوں میں زیادہ تر کیلاشیوں کے گھر اوپر کی جانب ہوتے ہیں اور بشالی کو کلاشہ گاؤں کے ذرا باہر بنایا جاتا ہے۔ اس جانب آپ کو مسلمانوں کے گھر بھی ملیں گے جن میں اکثریت ان کی ہے جو پہلے کیلاشہ مذہب کے پیروکار تھے۔

وہاں مجھے صحن میں موجود لڑکیاں اور عورتیں گپ شپ کے ساتھ اپنے روایتی کپڑے اور زیورات تیار کرنے میں مصروف نظر آئیں، کچھ بدستور لکڑی کے گیٹ سے آگے موجود رکاوٹ کے پار کھڑے ملاقاتیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔

لیکن کچھ خواتین کو میں نے بشالی سے باہر جاتے بھی دیکھا جہاں گاؤں کی عورتیں کپڑے اور سر دھونے کے لیے جاتی ہیں۔

تو پھر یہ پابندی کیسی ہے جب عورتیں اس عمارت سے باہر بھی جا سکتی ہیں؟

کلاشہ قوانین اور وادی میں نظر نہ آنے والی ان منقسم لکیروں اور پابندیوں کو سمجھنے میں مجھے وہاں سے گھر واپسی کی تیاری میں مصروف لینا اور ایسٹر سے بہت مدد ملی۔

’چھونا بھی منع‘

لینا نے بتایا کہ اصل پابندی گاؤں کے اندر جانے اور یہاں کے مکینوں اور درو دیوار کو چھونے پر عائد ہے۔

‘بشالی کی دیوار کو لوگ چھوتے نہیں ہیں۔ اسے چھونا منع ہوتا ہے۔ اور جو ہمارے رشتہ دار ہیں ماں، باپ اور بہن بھائی، وہ بھی ان دیواروں کو چھو نہیں سکتے۔ نہ ہمیں چھو سکتے ہیں۔ جب کوئی چیز لاتے ہیں تو بنا چھوئے پکڑاتے ہیں۔’

جیسے ہی کسی عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ پہلے دس دن بشالی میں گزارتی ہے پھر گھر چلی جاتی ہے۔ لیکن مکمل پاکی حاصل کرنے تک وہ گھر کا واش روم استعمال نہیں کر سکتی۔ پہلے پہل تو درد کے ساتھ ہی عورت کو گاؤں سے باہر نکل کر بشالی پہنچنا ہوتا تھا لیکن اب وہ ڈسپینسری یا شہر بھی چلی جاتی ہیں۔

اسی طرح جب لڑکی بالغ ہو جاتی ہے تو پھر اسے گھر میں بال دھونا بھی ممنوع ہو جاتا ہے۔

لینا کے مطابق ‘بشالی کے ساتھ ہی نیچے ندی بہتی ہے ہم گھر میں نہا تو سکتے ہیں لیکن سر نہیں دھو سکتے۔ ہم اس جگہ کو ‘گا’ کہتے ہیں یہاں ہم اپنے کپڑے بھی دھوتے ہیں اور بال بھی۔‘ وہاں آپ کو کھلے بالوں میں عورت دکھائی نہیں دے گی وہ گیلے بالوں میں ہی بل ڈال لیتی ہیں۔

لیکن ایسا نہیں کہ کیلاش کی ان تینوں وادیوں میں موجود تقریباً آٹھ بشالی ہاؤسز میں کبھی بھی کوئی لڑکی اکیلی رہی ہو۔ یا تو لڑکی کی ماں یا بہن آ جاتی ہیں یا وہ کسی مسلمان رشتے دار کے یہاں ٹھہر لیتی ہے۔

بشالی میں بیٹھی بٹ خیلی بی بی جو فیسٹیول کے لیے لباس تیار کرنے میں مصروف دکھائی دیں نے بتایا کہ’ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ہمارے پاس بستر اور کمبل نہیں ہوتے تھے ہم پتوں کو سر کے نیچے رکھتی تھیں۔ شدید برفباری میں گرم پانی ہوتا تھا نہ اوڑھنے کو کمبل۔ پہلے بہت مجبوری دیکھی پھر یونانی لوگوں نے ہماری بہت مدد کی۔ پہلے تو یہ صرف ایک کمرہ ہوتا تھا وہیں بچے کی پیدائش بھی ہوتی تھی۔ نیچے ندی میں جا کر نہانا پڑتا تھا۔ لیکن اب ہم خوش ہیں یہاں ہر سہولت ہے۔‘

لیکن کیا اس پابندی سے کبھی آپ خواتین کبھی نالاں نہیں ہوتیں، عام طور پر عورت اس قسم کے معاملات کو پوشیدہ رکھتی ہے۔

یہ موضوع ’ممنوع‘ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں کیلاش میں تو ہر کوئی آپ کے آنے اور جانے سے باخبر ہو جاتا ہے۔

کیلاشی لڑکیاں اور خواتین کہتی ہیں ایسا نہیں ہے ہم بشالی سے باہر اس موضوع پر بات نہیں کرتے نہ کھبی ہمیں کسی نے اس معاملے میں تنگ کیا ہے۔ اور یہ بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

‘وہ ہجوم میں مجھے ہاتھ لگا رہے تھے’

’رت نٹ‘ اور زندگی کے ساتھی کا چناؤ

پاکستان کی ’چھوٹی‘ زبانیں

ڈاکٹر بننے کی خواہش مند لینا کہتی ہیں پہلے پہل یہاں نئی لڑکیوں کے لیے یہاں رہنا آسان نہیں ہوتا۔

‘میں سوچتی تھی یہ کیا کہ گھر سے دور کہیں اور جا کر رکنا، عجیب لگتا ہے ناں۔ مگر اب عادی ہو گئے ہیں۔ یہاں اور تو کوئی مسئلہ نہیں ہاں ہم ان دنوں میں سکول نہیں جاتے،اجازت نہیں ہوتی لیکن امتحانات کے دوران ہم سکول سے باہر گھاس پر بیٹھ کر یا قریب کسی ہوٹل میں بیٹھ کر پیپر دیتے ہیں۔’

مائیں کہتی ہیں کہ بچوں کی یاد تو آتی ہے لیکن گھر پر موجود بزرگ انھیں دیکھ لیتے ہیں۔ بشالی میں تین سال کے بعد بچوں کے داخلے سے گریز برتا جاتا ہے۔

جب بشالی اداسی میں لپٹ جاتی ہے

لینا اور بہت سی دیگر خواتین کی نظر میں شاید حیض کے دوران ’بشالی گھر کی نسبت زیادہ آرام دہ جگہ ہے۔ کیونکہ یہاں گرم پانی، آرام دہ بستروں کے میسر ہونے کے علاوہ عورتوں اور لڑکیوں کو گھر کے روز مرہ کے کام نہیں کرنے پڑتے انھیں کھیتوں میں نہیں جانا پڑتا۔ اپنی مرضی سے سو یا جاگ سکتی ہیں۔ چاہیں تو باہر آنے والے ملاقاتیوں سے ملیں چاہیں تو کسی سے نہ ملیں۔‘

لیکن کچھ مواقع پر بشالی کی مکین چاہے نوعمر لڑکی ہو یا بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتی کوئی عورت دونوں کی اداسی اور تکلیف ایک جیسی ہی نظر آتی ہے۔

اگر وادی میں فیسٹیول ہو، کسی کی شادی ہو یا پھر کوئی مر جائے تو بشالی کے اندر موجود عورتوں کے لیے وہ لمحات بہت کھٹن ہوتے ہیں۔ کیونکہ نہ کسی جانے والے کا دیدار ہو سکتا ہے اور نہ ہی خوشی میں رقص۔

اگر کوٸی عورت بشالی میں مر جاۓ تو اس کی میت دیگر مرنے والی عورتوں یا مردوں کی طرح عبادت کے مقام پر نہیں لے جاٸی جا سکتی۔ اسے گاؤں میں نہیں لے جایا جا سکتا وہیں نیچے وادی میں کسی مقام پر تین دن تک رکھنے کے بعد دفن کر دیا جاتا ہے۔

بشالی کی دیوی

ایسٹر اب ایک بچی کی ماں بن چکی ہیں۔ بشالی سے نکلتے وقت وہ مجھے ایک کمرے میں لے گٸی جہاں دیوار میں لکڑی کا ایک نقش تھا۔ اس کے سامنے روٹی اور اخروٹ کے چند ٹکڑے رکھے تھے۔

‘یہ ہماری دیوی ‘ ڈیزالک’ ہے، ہم بچے کی پیداٸش سے قبل اس کے ذریعے خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ درد زرہ میں ہم اس کے سامنے اخروٹ توڑ کر پھینکتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ایسا ہوتا تو نہیں لیکن اگر کوئی بشالی کی حدود کی خلاف ورزی کرے اسے باہر سے بھی چھو لے یا کوئی بچہ ادھر سے گاؤں کی طرف چلا جائے تو پھر اس مقام پر بکرے کی قربانی دی جاتی ہے اور یوں وہ پاک ہو جاتی ہے۔

ایسٹر کا کہنا ہے یہ ہزاروں سال پرانی روایت ہے ہم یہاں سے باہر ان قوانین اور پابندیوں سے دور جا کر جب واپس لوٹتے ہیں تو پھر بنا کسی سوال کے ایک با پھر بشالی کا رخ کر لیتے ہیں۔

Courtesy: BBC Urdu

Share

Rana Tanveer

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *