‘ بنگش نے وجیہہ سے مل کر اسکے احمدی خاوند ڈاکٹر مہدی کو قتل کیا اور پھر آپس میں شادی کر لی’

 

وجیہہ سواتی کے دوسرے شوہر رضوان حبیب بنگش نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے 2014 میں ربوہ میں وجیہہ کے ساتھ مل کر اس کے سابق شوہر ڈاکٹر مہدی علی قمر کے قتل کا منصوبہ بنایاجسے جماعت احمدیہ نے ابتدائی طور پر پولیس اور میڈیا کو بتایا تھا کہ یہ قتل مذہبی منافرت کی وجہ سے ہوا ہے۔

ڈاکٹر مہدی کی موت کے چار ماہ بعد بنگش اور سواتی نے آپس میں شادی کر لی۔ وجیہہ اور ڈاکٹر مہدی امریکہ میں آباد تھے اور تین بیٹوں کے والدین تھے۔

بنگش، جو پہلے ہی وجیہہ سواتی کو قتل کرنے کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا ہے کہ اس نے ربوہ میں ڈاکٹر مہدی کو قتل کرنے کے لیے خیبر پختونخواہ کے علاقے ہنگو سے دوکرائے کے قاتلوں کی خدمات حاصل کیں۔ تفتیش کے قریبی پولیس ذرائع نے ریلیجن آبزرور کو بتایاکہ ان قاتلوں میں ایک کی موت واقع ہو چکی ہے تاہم پولیس دوسرے کی گرفتاری کی کوشش کر رہی ہے۔یاد رہے کہ

ابتدائی طور پر قتل کو مذہبی محرک قرار دیا گیا تھا او اس حوالے سے کسی سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی تھی۔

لیکن پولیس حکام نے اپنے طور پر کھوج نکال ہی لیا کہ وجیہہ نے اپنے دوست رضوان حبیب بنگش کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو قتل کرنے کی سازش کی۔اس سازش کے پیچھے ان کی چھپی یاری اور پیسے کر فرما تھے۔

وجیہہ جس نے اپنے سابق شوہر کے قتل کے چھ ماہ بعد بنگش سے شادی کی تھی، نے جماعت احمدیہ کی مدد سے ڈاکٹر مہدی کے قتل کو مذہبی رنگ دیا اور اس کی لائف انشورنس کی بھاری رقم وصول کر لی۔ بنگش نے بھی وجیہہ سے شادی کے لیے بڑی جائیداد اور رقم کا وعدہ کیا تھا۔ بنگش نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اور وجیہہ نے مل کر قتل کی سازش کی تاکہ وہ اکٹھے ہو سکیں۔

ایک ایسا معاملہ جو قتل پر منتج ہوا بالآخر خود ہی پرتشدد ہو گیا، جس کے نتیجے میں وجیہہ بھی قتل ہو گئی۔ اور اس کا قاتل وہی ہے جس نے اس کے سابق شوہر کو قتل کرنے میں اس کی مدد کی تھی۔ بنگش نے اسے امریکہ سے پاکستان آنے پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی وعدہ شدہ ازدواجی جائیداد اس کے نام منتقل کرے جہاں اس نے اسے بجائے جائیداد منتقل کرنے کے قتل کر دیا اور اس کی لاش کو اپنے گھر کے سامنے کے صحن میں دفن کر دیا۔

وجیہہ کے قتل کے کئی ہفتوں بعد بنگش کو گرفتار کیا گیا اور دوران تفتیش اس نے اس کے قتل کے ساتھ ساتھ اس کے سابق شوہر کے قتل کا بھی اعتراف کرلیا۔

بنگش نے یہ اعتراف چناب نگر پولیس کی تحویل میں 20 روزہ جسمانی ریمانڈکے دوران کیا۔ آٹھ رکنی اعلیٰ سطحی پولیس ٹیم قتل کی تحقیقات کر رہی ہے تاہم بنگش کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے۔

تفتیش میں شامل ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ڈاکٹر مہدی کے لواحقین سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اس کیس کی پیروی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاہم جماعت احمدیہ کے کچھ معززین تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ قتل سے متعلق ہر ممکن ثبوت اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ قاتلوں کو مثالی سزا دلوائی جا سکے۔

ڈاکٹر مہدی کو 26 مئی 2014 کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، اور ایف آئی آر میں ڈاکٹر مہدی کے قتل کی وجہ مزہبی نفرت انگیز تحریک بتائی گئی تھی کیونکہ وہ مظلوم احمدیہ کمیونٹی کے رکن تھے۔

نکاح نامے کے مطابق جس کی ایک کاپی ریلیجن آبزرور کے پاس موجود ہے، بنگش اور وجیہہ نے 11 نومبر 2014 کو شادی کی۔

گزشتہ سال وجیہہ نے اپنی شادی کو منقطع کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس نے 16 فروری 2021 کو لال مسجد، اسلام آباد سے ایک فتویٰ حاصل کیا، جس میں کہا گیا کہ وہ سنی مسلمان ہیں اور ان کے شوہر رضوان احمدی ہو چکے ہیں۔ اس طرح دارالافتاء لال مسجد کے مفتی حبیب سلمان نے ان کی شادی کو کالعدم قرار دے دیا۔ تاہم ڈاکٹر مہدی کی وفات کے بعد احمدیہ کمیونٹی کے سربراہ مرزا مسرور احمد کے خطبہ کے مطابق وجیہہ اور ڈاکٹر مہدی احمدی تھے۔جبکہ بنگش کے احمدی ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

فتویٰ حاصل کرنے کے بعد، وجیہہ نے 6 مارچ 2021 کو ایبٹ آباد کی فیملی کورٹ میں اپنی شادی ختم کرنے کا دعویٰ دائر کیا، لیکن اس نے  درخواست کے ساتھ فتویٰ کی کاپی منسلک نہیں کی۔ تاہم، 21 جون تک، وجیہہ نے یہ کہتے ہوئے کیس واپس لے لیا کہ اس نے اپنے شوہر بنگش کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے اور بظاہر مرتے دم تک بنگش کی ہی منکوحہ رہیں۔

Share

Rana Tanveer

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *